اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزالیل سموٹریچ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ حکومت مقبوضہ مغربی کنارے میں 22 نئی بستیوں کے قیام کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب دنیا کے کئی ممالک آنے والے مہینوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔
ناروے کے وزیرِ خارجہ اسپین بارتھ ایڈے نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل "فلسطینی زمین پر قبضہ کر کے دو ریاستی حل کو روکنا چاہتا ہے۔" اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل سے یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ امریکہ نے معاملے پر قدرے محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔
E1 منصوبہ: ایک پرانا تنازعہ
E1 کے نام سے مشہور یہ منصوبہ پہلی بار 1990 کی دہائی میں اسرائیلی وزیرِ اعظم یتزاک رابین کے دور میں پیش کیا گیا تھا، لیکن بین الاقوامی دباؤ کے باعث یہ عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ اس منصوبے پر پیش رفت کو امریکہ سمیت بیشتر ممالک ایک "سرخ لکیر" قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ ممکنہ فلسطینی ریاست کو جغرافیائی طور پر تقسیم کر دے گا۔
بین الاقوامی ردِ عمل
برطانیہ کے فارن آفس نے جولائی میں واضح کیا تھا کہ E1 میں تعمیرات "بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی" ہوں گی، جو فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کو شدید نقصان پہنچائیں گی۔
اندرونی سیاست اور سفارتی خطرات
سموٹریچ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اس وقت مقبولیت کھو رہی ہے، لیکن اس اعلان کو اسرائیل کے اندرونی سیاسی مقاصد اور بیرونی سفارتی چیلنجز کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عملی تعمیر شروع کرنے کا حتمی فیصلہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو ہی کرنا ہوگا، کیونکہ اس کے سنگین سفارتی اثرات ہو سکتے ہیں۔
امن کے امکانات یا مسلسل کشیدگی؟
اسرائیلی این جی او "پیس ناؤ" کا کہنا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر مغربی کنارے کا انضمام بڑھا رہی ہے، جو دو ریاستی حل اور خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام ہی وہ واحد راستہ ہے جو اسرائیل اور فلسطین دونوں کے لیے پائیدار امن لا سکتا ہے۔