غزہ میں الجزیرہ کے صحافیوں کی شہادت پر عالمی غم و غصہ
غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں الجزیرہ کے پانچ نامور صحافیوں کی شہادت نے دنیا بھر میں شدید ردِعمل پیدا کیا ہے۔ یہ حملہ غزہ سٹی کے الشفا اسپتال کے مرکزی دروازے کے باہر اُس وقت کیا گیا جب صحافی ایک عارضی پریس ٹینٹ میں اپنی رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے تھے۔ ڈرون حملے میں مجموعی طور پر سات افراد جاں بحق ہوئے جن میں الجزیرہ کے نامہ نگار انَس الشریف، محمد قریقہ، اور کیمرا آپریٹرز ابراہیم ظاہر، مؤمن علیوہ اور محمد نوفل شامل ہیں۔ ایک مقامی فری لانس رپورٹر محمد الخالدی بھی اس حملے میں جان سے گئے جبکہ متعدد صحافی زخمی ہوئے۔
انَس الشریف، جو محاصرہ زدہ غزہ میں اپنی بے خوف اور حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کے لیے جانے جاتے تھے، حملے سے چند گھنٹے پہلے ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ "ایکس" پر اسرائیلی بمباری کی شدت کے بارے میں اطلاع دے رہے تھے۔ ان کی شہادت کو غزہ میں آزاد صحافت کی ایک بڑی اور ناقابلِ تلافی کمی قرار دیا جا رہا ہے۔
فلسطینی ردِعمل
فلسطینی نمائندہ مشن نے اقوام متحدہ میں اسرائیل پر جان بوجھ کر صحافیوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ اس مقصد کے لیے تھا کہ دنیا کو غزہ میں جاری انسانی المیے کی اصل تصویر نہ دکھائی جا سکے۔ حماس نے بھی اس اقدام کو آزادیٔ صحافت پر حملہ اور آئندہ بڑے جرائم کو چھپانے کی کوشش قرار دیا۔
عالمی مذمت
ایران کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پریس بیج کسی جنگی مجرم کے لیے ڈھال نہیں، اور دنیا کو اسرائیل کو جوابدہ بنانا چاہیے۔
قطر کے وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ نے اسے صحافت پر ایک سنگین حملہ قرار دیا اور کہا کہ عالمی قوانین کی ناکامی اس المیے کو مزید بڑھا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ صحافیوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں کا مؤقف
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے اس واقعے کو واضح طور پر جنگی جرم قرار دیا۔ ان تنظیموں کے مطابق یہ صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد آزاد میڈیا کو خاموش کرانا ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے یاد دلایا کہ اسرائیل نے ماضی میں بھی بغیر ثبوت صحافیوں کو جنگجو قرار دے کر انہیں نشانہ بنایا۔
آزادیٔ صحافت پر سنگین حملہ
اسرائیلی فوج کے اس دعوے کے باوجود کہ انَس الشریف عسکری گروہوں سے منسلک تھے، عالمی برادری شفاف شواہد کے بغیر اس مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات نہ صرف صحافیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ زمینی حقائق تک دنیا کی رسائی کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔
نتیجہ
غزہ میں الجزیرہ کے صحافیوں کی شہادت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب وہاں کے حالات پہلے ہی شدید انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ سانحہ عالمی برادری کے لیے ایک کڑی یاد دہانی ہے کہ آزادیٔ صحافت محض ایک حق نہیں بلکہ جنگ زدہ علاقوں میں سچائی تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔ جب تک اس واقعے کی شفاف تحقیقات اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جائے، ایسے المیے دوبارہ پیش آنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔